تجھے مِل گئی اک خدائی حلیمہ

تجھے مِل گئی اک خدائی حلیمہ

کہ ہے گود میں مُصطفائی حلیمہ


یہ کیا کم ہے تیری بڑائی حلیمہ

زمانے کے لب پر ہے " مائی حلیمہ "


بہت لوریاں دِیں مہِ آمنہؒ کو

کہاں تک ہے تیری رسائی حلیمہ


جو ہے آخری ایک شہکارِ قدرت

وہ صورت ترے گھر میں آئی حلیمہ


لیا گود میں جب شفیعؐ الورٰی کو

بڑے فخر سے مُسکرائی حلیمہ


رسوؐلِ خدا اور آغوش اُس کی

وہ خدمت کے لمحے ، وہ دائی حلیمہ


دو عالَم کی دولت مجھے مِل گئی ہے

اُنہیں لے کے یہ گُنگُنائی حلیمہ


وہ نعمت جو تجھ کو عطا کی خدا نے

کسی اور نے کب وہ پائی حلیمہ


اُسے اپنی آغوش میں تُو لیے ہے

کہ شاہی ہے ، جس کی گدائی حلیمہ !


وہ عظمت مِلی ہے کہ اللہ اکبر

مقدّر کی تیرے دہائی حلیمہ!


اِسی کی ضیاؤں سے جگمگ ہے عالَم

مبارَک مہِ مُصطفائی حلیمہ !


نصیؔر اپنی قسمت پہ نازاں ہو، جس دَم

مِلے تیرے در کی گدائی حلیمہ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- فیضِ نسبت

دیگر کلام

ہر صحابیِ نبی ! جنتی جنتی

معزز ، معطر حسینؓ ابنِ حیدرؓ

مَظْہَرِعظمتِ غفّار ہیں غوثِ اعظم

تری ذات ہے بیشک لاثانی

بہارِ باغِ اِیماں حضرتِ فاروقِ اعظم ہیں

جن کے سینے میں ہے اکرام علی اکبر کا

مظہر نور خدا مہر علی ؒ

صاحبِ علمِ لدنی صدرِ بزمِ اولیا

پیتا ہے نگاہوں سے مے خوار قلندر کا

وفا پرستوں میں ننھا پسر حسین کا ہے