منظر فضائے دَہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں ، نظارا علی کا ہے
دنیائے آشتی کی پھبن ، مجتبیٰ حسن
لختِ جگر نبی ؐ کا تو پیارا علی کا ہے
ہستی کی آب و تاب ، حسین آسماں جناب
زھرا کا لال ، راج دُلارا علی کا ہے
مرحب دو نیم ہے سرِ مقتل پڑا ہوا
اُٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے
اے ارضِ پاک ! تجھ کو مبارَک کہ تیرے پاس
پرچم نبی ؐ کا ، چاند ستارا علی کا ہے
اہلِ ہوس کی لُقمہ تر پر رہی نظر
نانِ جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو! مُعاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
ہم فقر مست ، چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے
آثار پڑھ کے مہدیِؑ دوراں کے یوں لگا
جیسے ظُہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے
دنیا میں اور کون ہے اپنا بجز علی
ہم بے کسوں کو ہے تو سہارا علی کا ہے
اصحابی کاالنُّجوم کا ارشاد بھی بجا
سب سے مگر بلند ستارہ علی کا ہے
تُو کیا ہے اور کیا ہے تِرے علم کے بِساط
تجھ پہ کرم نصیؔر یہ سارا علی کا ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- فیضِ نسبت