عجز کو عرش تک رسائی دوں

عجز کو عرش تک رسائی دوں

اور تجھ کو تری دُہائی دوں


تیرے اوصاف حرزِ جاں کر کے

نفس کو درسِ پارسائی دوں


قلب کو ذکر سے کروں روشن

فکر کو شِرک سے رہائی دوں


تو مری ذات کو صفات بنا

میں انہیں تابِ خود نمائی دوں


تو مجھے صرف اپنی چاہت دے

میں ترے نام پر خدائی دوں


ہر بُنِ مُو سے نام لوں تیرا

فرش سے عرش تک سنائی دوں


تو ہے لیکن کسے مجالِ نظر؟

میں نہیں ہوں تو کیا دکھائی دوں؟

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

خوشا وہ دن حرم پاک کی فضاؤں میں تھا

کعبے کی رونق کعبے کا منظر

حاضر ہیں ترے دربار میں ہم

نشاں اسی کے ہیں سب اور بے نشاں وہ ہے

روح میں تن میں رگ و پے میں اتاروں تجھ کو

عجز کو عرش تک رسائی دوں

لبِ گویا کو وہ معراج عطا ہو یا رب

اللہ اللہ ہو فقط وردِ زباں یااللہ

تو کریم ہے تو صبور ہے تو غفور ہے

اے شہنشاہِ عفو و درگزر

الہی حمد کہنے کا ہنر دے