بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصُول

حمد ذِکرِ خدا ، نعت ذِکرِ رسُولؐ


اُنؐ کے حُسنِ کرم کا لگاؤ حساب

جن سے سیکھے ہیں سب نے کرم کے اصُول


کوئی مانے نہ مانے یہ اُس کا نصیب

رحمتِ ہر دو عالم ہیں سب کے رسُولؐ


اُمتّوں کے لئے حجّتِ آخری

عرش سے فرش پر اُنؐ کی شانِ نزُول


کیسے مُختار، کیسے عبادت گزار

نا خدائے دو عالم خدا کے رسُولؐ


میری کوتاہیاں گمرہی کی دلیل

وسعتوں کا امیں اُنؐ کا حُسنِ قبُول


ہم کو اپنی خبر ہے نہ اُنؐ کا خیال

وہؐ ہماری خطاؤں کی خاطر ملُول

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

نگاہِ حق میں مقامِ محمدؐی کیا ہے

کوئی اُنؐ کے بعد نبی ہُوا

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

اِسی اُمید پہ تنہا چلا ہوں سوئے حرم

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

یارب یہ تمنّا ہے کہ نازل ہو وہ ہم پر

دِل سے اوہام مٹے فکر نے رستہ پایا