ہے تلخئ حالات سیہ رات بہت ہے

ہے تلخئ حالات سیہ رات بہت ہے

ہو جائے اگر چشمِ عنایات، بہت ہے


جاں بخش ہے یہ قول کسی اہلِ نظر کا

ہوں اُن کی نگاہوں میں یہی بات بہت ہے


بَردے کو ملے بارِ دگر اذنِ حضوری

بے مایہ کی آقا یہ مدارات بہت ہے


پھر شام و فلسطین میں اے رحمتِ عالم!

اُمّت تیری در رنج و بلیّات بہت ہے


آنسو نہیں موتی ہیں یہ چشمانِ طلب میں

یہ گنجِ گراں مایہ کی سوغات بہت ہے


صد شکر کہ منگتا نہیں شاہانِ زمن کا

دامن میں تیری آل کی خیرات بہت ہے


لفظوں میں سکت ہے نہ معانی میں قرینہ

ہوں وقفِ ثنا پھر بھی یہ اوقات بہت ہے


اے حاصلِ گفتار ! مری وجہِ تکلّم

ہر آن تر و تازہ تری بات بہت ہے


اے روحِ تکلّم اے مری جانِ قصیدہ !

سو باتوں کی اک بات تری بات بہت ہے


کچھ کام نہیں شعر و سخن دادِ ہُنر سے

مقصودِ ظفر آپ کی بس نعت بہت ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

جو سایہ ہی نہیں تیرا کہاں

اے ختم رُسل مکی مدنی

سر جُھکا لو احمدِ مختار کا ہے تذکِرہ

گناہوں کی نہیں جاتی ہے عادت یارسولَ اللہ

شہسوارِ کربلا کی شہسواری کو سلام

کشتیاں اپنی کنارے پہ لگائے ہوئے ہیں

ئیں کوئی اوقات او گنہار دی

بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے

ایسا تجھے خالق نے طرحدار بنایا

اعمال کے دَامن میں اپنے