جو سایہ ہی نہیں تیرا کہاں

جو سایہ ہی نہیں تیرا کہاں ثانی لطافت میں

ترا طوطی ہی بولے گا مرے آقاؐ قیامت میں


جو رہتے ہیں مدینے میں وہ حظ لیتے ہیں جینے کا

سکونت شہرِ طیبہ کی خدایا لکھ دے قسمت میں


وہ منظر فتحِ مکہ کا، زمانہ کیسے بھولے گا

معافی ان کو بھی دے دی جو آگے تھے رقابت میں


وہ خندق کی کھدائی میں شکم پر ہیں بندھے پتھر

ذرا دیکھیں مرے آقاؐ ہیں کس اوجِ قناعت میں


مرے آقاؐ نے ان کو بھی جلیل اپنا بنایا ہے

جو ہر لمحہ مگن رہتے تھے آقاؐ سے شقاوت میں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

خطا کار پر مہرباں ہیں محمدؐ

دامانِ کرم کے جو سہارے نہیں ہوتے

خُلقِ رسولؐ سے اگر اُمّت کو آگہی رہے

محمدؐ کی نعتیں سناتے گزاری

مجھ خطا کار پہ آقاؐ جو نظر ہو جائے

فہم و ادراک سے ماورا شان ہے

دیکھ لوں جا کر مدینہ پاک کو

ان کے چہرے کی تجلّی سے

سدا ممنونِ احساں ہوں کہ

خوشا ان کی محبت ہے بسی