وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص ذری نہیں

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص ذری نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ بجھی نہیں


مرے حال سے وہ ہیں باخبر کوئی بات ان سے چھپی نہیں

مجھے اور نار کا خوف ہو، نہیں جی نہیں، نہیں جی نہیں


وہ نظر ہے کیسی نظر کہ جو رخِ مصطفیٰ پہ جمی نہیں

وہ زبان کیسی زبان ہے کہ جو وقف ذکرِ نبی نہیں


وہی رمزِ کل، وہی رازِ کل، وہی سرِّ کل وہی نورِ کل

وہی جانِ کُل وہی شانِ کل کہ حبیب ان سا کوئی نہیں


ہیں وہی خلیل کی التجاء ہیں وہی کلیم کا مدعا

ہیں وہی مسیح کا معجزہ، یہ صفت کسی کو ملی نہیں


جو خدا نے رتبہ انھیں دیا کسی اور کو نہیں مل سکا

کسی اور نے یہ نہیں کہا مرے بعد کوئی نبی نہیں


ہیں وہی امینِ کلامِ رب، ہے انھیں کی مِلک میں سب کا سب

وہی کائنات کا ہیں سبب، جو وہی نہ ہوں تو یہی نہیں


وہی ہیں محمدِ مصطفیٰ جنھیں رب نے اپنے لیے چنا

وہ کمالِ حسن عطا کیا کہ کہیں بھی کوئی کجی نہیں


بَلَغَ الْعُلیٰ بِکَمَالِہِ، کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمَالِہِ

حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہِ کوئی آیا ان سا نبی نہیں


انھیں رب نے علم عطا کیا انھیں شاہِ صدق و صفا کیا

انھیں بحرِ جود و سخا کیا، کوئی شے اٹھا کے رکھی نہیں


وہ حبیبِ ربِّ عُلا ہوئے وہ شفیعِ روزِ جزا ہوئے

وہ عمیمِ جود و عطا ہوئے، کوئی خوبی ان سے بچی نہیں


دیئے ان کی مِلک میں دو جہاں، کیا ان کو سرور سروراں

انھیں علمِ کون و مکاں دیا کہ عطائے رب میں کمی نہیں


وہی تاجدارِ حرم ہوئے وہی غم گسارِ عجم ہوئے

وہی رہ نمائے اُمم ہوئے کہ مثالِ مصطفوی نہیں


وہ جو دشمنوں کو پناہ دیں وہ جو ظالموں کو دعائیں دیں

جو بغیر مانگے عطا کریں، کوئی ان کے مثل سخی نہیں


یہ کرم ہے رب کا حبیب پر، کیا ان کا ذکرِ عزیز تر

جو نہ بھیجیں ان پہ درود ہم تو ادا نماز ہوئی نہیں


کبھی ان کو دیکھا جو خواب میں، ہوا گم انھیں کی جناب میں

میں بتاؤں کیسے کہ کیا ہوا، نظر ان کے رخ پہ جمی نہیں


کیا ذکرِ مالک این و آں، پڑھی نعتِ سرورِ دو جہاں

یہی کہہ رہے ہیں سبھی یہاں کہ ہماری پیاس بجھی نہیں


یہ وہ پیاس ہے جو بجھے نہیں یہ وہ ذکر ہے جو رکے نہیں

یہ ہے عشقِ احمدِ مجتبیٰ کہ اتار اس کا کوئی نہیں


انھیں میں نے اپنا بنا لیا، انھیں اپنے دل میں بٹھا لیا

کسی اور سے مجھے کیا غرض، مرے پاس کوئی کمی نہیں


یہ رضا کی روح کا فیض ہے کہ قلم کو میرے زباں ملی

سبھی کہہ رہے ہیں یہ برملا کہ ہماری پیاس بجھی نہیں


انھیں اپنا جیسا بشر کہا، بڑا بھائی جیسا بنا دیا

بڑا بدگمان ہے نجدیا کوئی اس سے بڑھ کے شقی نہیں


ہے غلام نظمی حضور کا ہوا کیوں اسیر غم و بلا

مری آنکھ آپ کو چھوڑ کر کسی اور پر تو جمی نہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

اکھیاں کھول تے سہی

کرو رحمتاں ہُن عطا یا نبی

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

جہڑے دل تھیں اک نوں من لیندے اوہ بھار دوئی دا چکدے نئیں

طرزِ سرکارؐ کو بس جانِ انقلاب لکھو

بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

شجر خوب صورت حجر خوب صورت

جب نام سے آقا کے میں نعرہ لگا اُٹّھا

مدینہ بس تمہیں اک آستاں معلوم ہوتا ہے

ایہہ دو دن دا میلہ ایہہ دو دن دی یاری