بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

سامانِ شفاعت کا روضے کا نظارا ہے


محبوبِ دو عالم کی رحمت ہی زمانے میں

ہر دکھ کا مداوا ہے ہر غم میں سہارا ہے


اس ہادیِٔ برحق کی تعلیم کے کیا کہنے

جس ذات پر اللہ نے قرآن اتارا ہے


اللہ نے سُن لی ہے فریاد سوالی کی

سرکارِ مدینہ کو جس نے بھی پکارا ہے


مرکز ہے نگاہوں کا روضہ ہی مدینے میں

گنبد کا نظارا ہی ہر آنکھ کا تارا ہے


اپنا تو وظیفہ ہے توصیف محمدؐ کی

ہر گام ظہوریؔ یہ معمول ہمارا ہے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

یوں تو لاکھوں مہ جبیں ہیں آپ سا کوئی نہیں

درد کا درماں قرارِ جاں ہے نامِ مصطفےٰؐ

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

عیاں ہے فیضِ کرم کا ظہور آنکھوں سے

وہ دل سکون کی دولت سے شاد کام ہوا

بیٹھتے اُٹھتے نبیؐ کی گفتگو کرتے رہے

درود آلام کا جس وقت اندھیرا ہوگا

آپ کا جو غلام ہوتا ہے

کیا لطف ہے سخن کا اگر چشم تر نہ ہو

جرمِ عصیاں سے رہا ہونے کا چارا مانگو