یوں تو لاکھوں مہ جبیں ہیں آپ سا کوئی نہیں

یوں تو لاکھوں مہ جبیں ہیں آپ سا کوئی نہیں

ایک محبوبِ خدا ہے دوسرا کوئی نہیں


ہیں شبِ اسرٰے کی ساری رفعتیں ان پر نثار

ایسی خلوت میں گیا ان کے سوا کوئی نہیں


جرم کتنا ہی نہ کیوں ہو بخش دیتا ہے خدا

وہ جسے کہہ دیں کہ جا تیری خطا کوئی نہیں


وہ عبادت جس میں حبِ مصطفےٰؐ شامل نہیں

یہ وہ کشتی ہے جس کا ناخدا کوئی نہیں


مسکنِ نبوی مدینہ پاسدارِ بیکساں

اور دنیا میں کہیں ایسی فضا کوئی نہیں


دیکھ کر مجھ کو ظہوریؔ اتنا کہتے ہیں طبیب

یہ مریضِ عشق ہے اس کی دوا کوئی نہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

تھی جس کے مقّدر میں گدائی ترے در کی

من ناچت ہے من گاوت ہے تورا جنم دیوس جب آوت ہے

کوئی رہ آسمان تے یار گیا ، کوئی جا سدرہ تے ہار گیا

اللہ اللہ یہ گناہگار پر شفقت تیری

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

جنہیں خلق کہتی ہے مصطفیٰ

نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

لَو مدینے کی تجلّی سے لگائے ہوئے ہیں

چھوڑ امیّد و بیم کی باتیں

درود آپ پہ آقا کہ حکمِ یزداں ہے