تھی جس کے مقّدر میں گدائی ترے در کی

تھی جس کے مقّدر میں گدائی ترے در کی

قدرت نے اُسے راہ دکھائی ترے در کی


ہر وقت ہے اب جلوہ نمائی ترے در کی

تصویر ہی دل میں اُتر آئی ترے در کی


ہیں ارض و سماوات تِری ذات کا صدقہ

محتاج ہے یہ ساری خدائی ترے در کی


انوار ہی انوار کا عالَم نظر آیا

چِلمن جو ذرا مَیں نے اُٹھائی ترے در کی


مشرب ہے مِرا تیری طلب، تیرا تصور

مسلک ہے مِرا، صرفِ گدائی ترے در کی


دَر سے ترے اللہ کا در، ہم کو مِلا ہے

اِس اَوج کا باعث ہے رسائی ترے در کی


اِک نعمت عُظمیٰ سے وہ محروم رہے گا

جس شخص نے خیرات نہ پائی ترے در کی


مَیں بُھول گیا نقش و نگارِ رُخِ دُنیا

صورت جو مِرے سامنے آئی ترے در کی


تازیست ترے در سے مِرا سَر نہ اُٹھے گا

مَر جاؤں تو ممکن ہے جدائی ترے در کی


صد شکر کہ مَیں بھی ہُوں بھِکاری ترے در کا

صد فخر کہ حاصل ہے گدائی ترے در کی


پھر اُس نے کوئی اور تصّور نہیں باندھا

ہم نے جسے تصویر دِکھائی ترے در کی


ہے میرے لیے تو یہی معراجِ عبادت

حاصل ہے مجھے ناصیہ سائی ترے در کی


آیا ہے نصیرؔ آج تمنا یہی لے کر

پلکوں سے کیئے جائے صفائی ترے در کی

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے

مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

تیرا کھاواں میں تیرے گیت

نعتِ سرورؐ میں اگر لطفِ مناجات نہیں

گل و لالہ کی تحریروں میں بس فکرِ رسا تُو ہے

میرے بھی دل و جاں کو بنا ربِّ زمن پھول

ازل سے محوِ تماشائے یار ہم بھی ہیں

خرد کی موت بنی ہے جنوں کا پہلا قدم

حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں