عیاں ہے فیضِ کرم کا ظہور آنکھوں سے

عیاں ہے فیضِ کرم کا ظہور آنکھوں سے

لگایا میں نے جو نامِ حضورؐ آنکھوں سے


مچل رہی ہے تمنائے دید سینے میں

اُبل رہا ہے محبت کا نور آنکھوں سے


ملے گا عشق کی سرمستیوں کا سرچشمہ

حبیبِ پاکؐ کی اُلفت میں چُور آنکھوں سے


نگاہِ یار مری ہر گھڑی محافظ ہے

خدا کرے نہ کبھی ان کی دُور آنکھوں سے


مئے طہُور کسی جام کی نہیں محتاج

لُٹا رہے ہیں وہ کیف و سرور آنکھوں سے


ظہوریؔ درد سے نا آشنا ہی دل رہتا

اگر نہ دید کا ملتا سرور آنکھوں سے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

ان کے آنے کی خوشیاں مناتے چلو

فرش پہ دھوم صلِّ علیٰ کی

یوں تو لاکھوں مہ جبیں ہیں آپ سا کوئی نہیں

درد کا درماں قرارِ جاں ہے نامِ مصطفےٰؐ

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

وہ دل سکون کی دولت سے شاد کام ہوا

بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

بیٹھتے اُٹھتے نبیؐ کی گفتگو کرتے رہے

درود آلام کا جس وقت اندھیرا ہوگا

آپ کا جو غلام ہوتا ہے