سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی

چل قلم اب حمدِ رب مقصود ہے

حمد ہے رب کی کہ جس نے یہ جہاں پیدا کیا

سب سے سیدھا سب سے سچا ہے نظام اللہ کا

ایک شعر

جب نام سے آقا کے میں نعرہ لگا اُٹّھا

پھر مدینہ کا سفر یاد آیا

حرمِ طیبہ کا دستور نرالا دیکھا

ان کی جام جم آنکھیں شیشہ ہے بدن میرا

روزِ محشر جانِ رحمت کا عَلَم لہرائے گا

مبارکباد اے برکاتیو مژدہ ہے جنت کا

دل میں عشق مصطفیٰ کا نوری جوہر رکھ دیا

نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

وقف نظمی کا قلم جب نعتِ سرور میں ہوا

ذبیح اعظم کے خاندان میں حبیب ربِ حسیب آیا

دل کو جب بارِ الم یاد آیا

مدحِ سرکار میں نعتیں میں سناتا رہتا

آرزوئیں کیسی ہیں کاش یوں ہوا ہوتا

اے بادِ صبا ان کے روضے کی ہوا لے آ

خوشبو ہمیں طیبہ کی سنگھانے کے لیے آ

جانِ ایمان ہے الفتِ مصطفیٰؐ

راحت فزا ہے سایہء دامانِ مصطفیٰﷺ

سجدہ گاہِ قلبِ مومن آستانِ مصطفیٰﷺ

بیچ منجدھار میں ہے میرا سفینہ یا رب

حج کے وہ منظر سہانے ہم کو یاد آئے بہت

طیبہ نگر کو جانا ہے باعثِ سعادت

انسان کو انسان بناتی ہے حدیث

کس کو فرمایا خدا نے نور کا روشن سراج

نامِ احمد ہے خدا کے فضل سے ایماں کی روح

خدا کا فضل ہے رحمت ہے بارھویں تاریخ

حبیبِ رب عُلا محمدؐ