حرمِ طیبہ کا دستور نرالا دیکھا
جذبہء عشق ہر اک دل میں دوبالا دیکھا
اپنے محبوب کو بخشی ہے خدا نے کثرت
ہم نے قرآن کی آیت میں حوالہ دیکھا
دعوتِ حضرتِ جابر میں تھا اعجازِ لعاب
سینکڑوں باتوں میں برکت کا نوالہ دیکھا
نفسی نفسی میں جہاں سوکھے تھے اوروں کے حلق
ایک ہی بات میں کوثر کا پیالہ دیکھا
جس نے ہیرے کی پرکھ کی وہی صدیق ہوا
بو لہب نے تو سدا دال میں کالا دیکھا
مہد سے تا بہ لحد جس کو تھا امت کا خیال
باپ سے زیادہ نبی چاہنے والا دیکھا
پڑ گئی ایک نئی جان گنہگاروں میں
دستِ آقا میں جو جنت کا قبالہ دیکھا
انبیا سے میں کروں عرض کہ روزِ محشر
کس کے کاندھوں پہ شفاعت کا دوشالہ دیکھا
میرے آقا ہیں بلیغ اتنے کہ ان کے آگے
اچھے اچھوں کی زباں پر لگا تالا دیکھا
تم نے کیا دیکھا نہ دیکھا یہ تمہاری قسمت
ہم نے مارہرہ میں طیبہ کا اجالا دیکھا
پڑھ لے او نجدی بخاری میں شفاعت کی حدیث
آقا نے کتنوں کو دوزخ سے نکالا، دیکھا
عرس برکاتی ہو یا عرس شہ نوری کا
ہم نے ہر جلسے میں بس رنگ رضا کا دیکھا
پیر کے ساتھ جو حجرے میں گزارے لمحے
اے رضا ہم بھی سنیں آپ نے کیا کیا دیکھا
غوثِ اعظم کی نیابت شہ برکت کو ملی
ان کے دروازے پہ ہر غم کا ازالہ دیکھا
جو بھی مارہرہ میں آتا ہے یہی کہتا ہے
ہر قدم بہتا یہاں فیض کا دریا دیکھا
بزمِ میلاد میں ہر لب پہ یہی بات رہی
نظم کے روپ میں نظمی کا مقالہ دیکھا
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا