جو بھی منظر تھا وہ تھا ہوش اڑانے والا

جو بھی منظر تھا وہ تھا ہوش اڑانے والا

واپس آتا نہیں دل سے، کوئی جانے والا


واقعہ یہ ہے کہ میرا ہی نہیں خلقت کا

جو بھی آنسو تھا، وہ تھا نعت سنانے والا


صرف جادے ہی نہ تھے پھول کھلانے والے

ذرہ ذرے کو تھا خورشید بنانے والا


خندہ لب، چہرہ شفق، شاد نظر، چاند بکف

اسی عالم میں تھا ہر سامنے آنے والا


ایک ہم ہی نہ تھے ناز اپنے اٹھانے والے

وہاں ہر فرد تھا ناز اپنے اٹھانے والا

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

محبوبِ کبریا کی ہے رحمت حروف نور

اے شہنشاہِ مدینہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

درودِ پاک کا دفتر زمیں سے آسماں تک ہے

خالی رہوے نہ دامن مولا کِسے گدا دا

الصلٰوۃ و السلام اے غایتِ صبحِ ظہور

اگر درود لبوں پر سجا نہیں سکتی

ضروری انؐ کی حضوری ہے زندگی کے لیے

میرے دل دے اُجڑے گلشن وچ تیری یاد دے نال آبادی اے

دائیاں دا سوال-حلیمہ دا جواب

میں کراں ربّا ثنا سرکارؐ دی