اپنی ضد کا ثبوت اس طرح ہوا دیتی تھی

اپنی ضد کا ثبوت اس طرح ہوا دیتی تھی

میری پلکوں پر چراغوں کو جلا دیتی تھی


سبز گنبد کی فضا پاس سے جب دیکھتا تھا

وہ مجھے سورۂ رحمٰن سنا دیتی تھی


آسماں پر ہی رہا اُن گلی کوچوں میں دماغ

کیا بیاں کیجیے کیا لغزشِ پا دیتی تھی


جو بھی جاتی تھی گلی رحمتِؐ عالم کی طرف

تیرہ راتوں میں بھی آنکھوں کو ضیا دیتی تھی


ناز کر ناز کہ آقاؐ نے بلایا اختؔر

ہر نئی موج مرے دل میں صدا دیتی تھی

شاعر کا نام :- اختر لکھنوی

کتاب کا نام :- حضورﷺ

دیگر کلام

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

درِ مصطفےٰ پہ جس دم، دمِ بےخودی میں پہونچے

سحر کے، شام کے منظر گلاب صورت ہیں

حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

یوں مدینے میں لوگ چلتے تھے

سو رنگ ہیں اب پاس مرے دیدہ وری کے

جو بھی منظر تھا وہ تھا ہوش اڑانے والا

دل کی دھڑکن تیز، ہستی صورتِ تصویر تھی

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو