بھیج سکوں کا کوئی جھونکا

بھیج سکوں کا کوئی جھونکا

دل بے چین ہے بارِ الٰہا


وہ بحران ہے دم گھٹتا ہے

آب و ہوا کا کوئی مداوا


تیرے فضل تری رحمت سے

ذاتی غم ہے مجھ کو گوارا


سخت پریشاں رکھے لیکن

درد و الم ابنِ آدم کا


انساں کا انساں ہے دشمن

بجھا بجھا ہے چہرہ چہرہ


اس پر ملتِ بیضا کا غم

بنتا جاتا ہے جاں لیوا


سب اسلامی قوموں پر ہے

پردہء امن میں ظلم ہمیشہ


مغربیوں کا دامِ معیشت

سخت بہت ہے ہو تا جاتا


یہ تشویش ہے سب سے بڑھ کر

دیس ہے ہر آفت کا نشان


دہشت گردی کے عفریت نے

خوف ہے ہر جانب پھیلایا


لوٹ کھسوٹ کی یلغاروں سے

ساری معیشت ہے تہ و بالا


وار سے فرقہ واریت کے

قصرِ اخوّت میں ہے لرزہ


شورش و سازش کی دیمک نے

چاٹ لیا ہے ہر منصوبہ


امن و اماں ہے درہم برہم

مہنگائی کا بول ہے بالا


مغرب کی زد میں ہے ثقافت

شرم و حیا کا سانس ہے اکھڑا


ہر انساں ہے بیکل و مضطر

مقصدِ زیست ہے بھولا بھولا


میرے خدا اس پاک وطن میں

دینِ محمدؐ کا ہو احیا


عدل و خیر کا دور آجائے

ہر کوتاہی کا ہو ازالہ


پھولیں پلیں اقدارِ ہدایت

نور شریعت کا ہو ہویدا


یک جہتی پیدا ہو جائے

صدق و صفا کا ہو پھر چرچا


ہر ہر موڑ پہ مدِّ نظر ہو

تیرے پاک نبیؐ کا شیوہ


نافذ ہو اسلام دلوں پر

حسنِ عمل کے سب ہوں شیدا


حرمتِ خونِ بشر ہوروشن

ہر ہر دل میں درد ہو پیدا


جو عاشق ہیں ختمِ رسلؐ کے

وہ اپنائیں ان کا اسوہ


پائیں فروغ اقدارِ محبت

رنگ ہو ہمدردی کا گہرا


تیرہ و تار فضا سے یارب

پھوٹ پڑے سر سبز سویرا


ایک ہوں سارے اہلِ ایماں

زیرِ قیادت ان کے ہو دنیا


وہ اسلام کا رنگ جمائیں

ہوجائے ہر سمت اجالا


جذبہء خدمت دل میں بسائیں

لہرائیں احسا ں کا پھریرا


ہر صورت ہو نکھری نکھری

ہر منظر ہو اجلا اجلا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

کالی کملی والے

فرشتوں کے دل پر بھی جس کا اثر ہے

نگا ہوں میں ہے سبز گنبد کا منظر

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

مُبَارَک ہو حبیبِ ربِّ اَکبر آنے والا ہے

خاص رَونق ہے سرِ عرشِ علیٰ

اُن کا چہرہ ، کتاب کی باتیں

شافعِؐ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

چلو دیارِ نبیؐ کی جانب درود لب پر سجا سجاکر