افتخارِ کائناتِ حسن ہے سویا ہوا

افتخارِ کائناتِ حسن ہے سویا ہوا

بسترِ راحت پہ فیضِ نور میں کھویا ہوا


فصلِ دل میں وصلِ حق کا بیج ہے بویا ہوا

ہاتفِ غیبی سے رب العالمیں گویا ہوا


آج اٹھ جائیں گے یکدم بیچ کے سارے حجاب

آج اطمینان پائے گا جہانِ اضطراب


حسنِ باغِ خلد پر جوشِ جوانی آ گیا

غم کے ماروں کو پیامِ شادمانی آ گیا


جانبِ حق سے یہ حکمِ ضوفشانی آ گیا

اٹھ کے وقتِ اطّلاعِ مَنْ رَّآنِیْ آ گیا


لا مکاں کے سارے ابوابِ مقفّل کُھل گئے

راز لفظِ لَنْ تَرَانِیْ کے مکمل کُھل گئے


طائرِ سدرہ پہن کر نور کا اِک پیرھن

دیکھنے آئے شبستانِ نبی کا بانکپن


چوم کر تلوے ادب سے عرض کی اے جانِ من

میں فدا سو جان سے اے کعبہِ باغِ عدن


مژدہِ دیدارِ روئے کبریا لایا ہوں میں

دیکھئے کس کی طرف کیا ہو کے کیا لایا ہوں میں


آبِ زم زم کو دلِ اطہر سے نسبت دی گئی

شانِ برّاقِ ارم کو اور عظمت دی گئی


آپ کو اقصٰی میں نبیوں کی امامت دی گئی

کائناتِ کُن فکاں کی کل حکومت دی گئی


حکم جاری ہو گیا یہ خالقِ اِجلال کا

آج سے سکّہ چلے گا آمنہ کے لعل کا


آسمانوں کو سجایا جا رہا ہے دوستو

چاند تاروں کو بتایا جا رہا ہے دوستو


پردہِ وحدت اٹھایا جا رہا ہے دوستو

ہر طرف یہ نغمہ گایا جا رہا ہے دوستو


واجب التعظیم نورِ دلنشیں آنے کو ہے

عرش پر محبوبِ ربّ العالمیں آنے کو ہے


مہ وشانِ قدس کی آنکھوں میں مستی آ گئی

موجہِ نہرِ عدن بھی ہستی ہستی آ گئی


بوئے جنّت بھی قبا کے بند کستی آ گئی

نہرِ کوثر چشمِ ساقی کو ترستی آ گئی


ہر کسی کو انتظارِ مالکِ کونین ہے

ہاں مگر وہ راہ گیرِ وادئ قوسین ہے


لالہ و گُل شبنمی قطروں سے نہلائے گئے

حوریوں کو ریشمی جوڑے بھی پہنائے گئے


حاملینِ عرش کے عارض بھی مہکائے گئے

نت نئے تعظیم کے انداز سکھلائے گئے


میزبانی کر رہا ہے خود خداوندِ کریم

اور مہمانی کے رتبے پر ہے انسانِ عظیم


خلد میں پرواز شہ بازوں کی اونچی ہو گئی

قمریانِ قدس کی لَے بھی سریلی ہو گئی


مشک بھی ماحول کی یکدم سہیلی ہو گئی

حضرتِ رضواں کی بولی اور میٹھی ہو گئی


مدْحَ خوانِ نعلِ سرور آسماں ہونے لگا

فیضِ نورِ سرمدی اُن کا عیاں ہونے لگا


چشمِ غلمانِ جِناں میں بھی خماری آ گئی

دشت و صحرا بول اٹھے، بادِ بہاری آ گئی


کہکشاؤں میں بھی خوئے انکساری آ گئی

دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی سواری آ گئی


رقص میں بے خود فرشتے گنگنانے لگ گئے

اِن کے آنے سے اندھیرے بھی ٹھکانے لگ گئے


محفلِ انجم کو عنواں گفتگو کا مل گیا

حسرتِ مہتاب کو پانی وضو کا مل گیا


حزبِ شیطاں کو بہانہ ھا و ھو کا مل گیا

اور حزبِ حق کو رستہ آرزو کا مل گیا


شاہ بازِ فکرِ الفت جوش میں اڑنے لگا

اشہبِ فرقت نشانِ قرب کو مُڑنے لگا


قدسیوں نے زمزمِ حکمت کا چھڑکاؤ کیا

عنبریں ماحول نے بھی خوب گھیراؤ کیا


شان کے شایاں خطاکاروں سے برتاؤ کیا

جرم کے دفتر کا چشمِ لطف سے بھاؤ کیا


رحمتوں کی بھیک لیتے ہی ہوائیں چل پڑیں

جانبِ روئے محمدﷺ سب دعائیں چل پڑیں


سوئے حق سے پھر صدائے اُدْنُ مِنِّیْ آ گئی

بندگی کے جذبہِ صادق پہ مستی چھا گئی


ایک دوجے کی ادا دونوں کو اتنی بھا گئی

بات اَسْرٰی سے چلی تھی سوئے اَوْ اَدْنٰی گئی


ایسے دیکھا چہرہِ خالق کہ مَا زَاغَ الْبَصَرْ

ہو گئی مسند نشینِ مَا طَغٰی اُن کی نظر


عَبْدِہٖ کی گرہیں کھولوں، شرحِ بَارَکْنَا کروں

یا تلاوت آیتِ وَالنَّجْم تا کُبْرٰی کروں


ہاں مگر اسرارِ مَا اَوْحٰی کو جب سوچا کروں

پھر خیال آتا ہے ناقص فہم ہوں، کیا کیا کروں


اِس سے بڑھ کر سرحدِ عقلی میں کچھ نہ آ سکا

جس جگہ آقا گئے کوئی وہاں نہ جا سکا


اُن کے آگے دائرے امکان کے شرما گئے

خاندانِ وقت کے اُس رات سر چکرا گئے


آنکھ والے اے تبسم دیکھ کر بتلا گئے

منزلیں طے کر کے لاکھوں ایک پل میں آ گئے


زور لگ جائے بھلے ادراک کی افواج کا

عقل میں نہ آ سکے گا واقعہ معراج کا

زخم بھر جائیں گے سب چاک گریبانوں کے

الصُّبْحُ بدَا مِنْ طَلْعَتِہ

چھٹ گئی کفر و باطل کی تیرہ شبی آفتابِ رسالت کی پھوٹی کرن

سب سے اولٰی و اعلٰی ہمارا نبیﷺ

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگۓ

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظمؒ

افسوس! بہت دُور ہوں گلزارِ نبی سے

شافعِؐ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام

اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے