حافظ محمد ابوبکر تبسمؔ

تمام حمد اسی قادرِ عظیم کی ہے

حضور آپ ہیں خِلقت کا اوّلیں مطلع

چہرہ ہے کہ بے داغ جواں صبحِ فروزاں

کیوں پھرتی ہے کھولے ہوئے بالوں کو بھلا شام

کرتی ہے تسلسل سے اندھیروں کا سفر رات

ان کی چوکھٹ پہ جھکانا ہے جبینِ دل کو

نعت کیا لکھوں؟ تخیل ورطۂ حیرت میں ہے

غمِ زمانہ جو دل سے بنا کے بیٹھ گیا

مرے خیال نے طیبہ کا کیا طواف کیا

تجلیات کا سہرا سجا کے آئے ہیں

کرم کی روئیداد آپ ہیں

اگر نہ تیری فقیری اے تاجدار کرے

تاجور اُس کی زیارت کی دعا کرتے ہیں

جس کو اپنا رخِ زیبا وہ دکھا دیتے ہیں

ہم کو آتا ہے صدا کرنا صدا کرتے ہیں

اس خوش نصیب شخص کو رب کا سلام ہے

باخدا بہرِ شفاعت نہ خزینے جوڑے

نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

نہ جواہرات کی چاہ کر نہ گُہر کے ناز و نِعم اٹھا

اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

علاج تشنہ لبی کا کمال برسا ہے

قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

جب سے وہ دلدار ہوئے ہیں

وہی راستہ رشکِ باغِ جِناں ہے

افتخارِ کائناتِ حسن ہے سویا ہوا

دامانِ طلب کیوں بھلا پھیلایا ہوا ہے

رشتہ نہیں ہے جس کا تِری بارگاہ سے

جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

مشکل میں پڑی ہے بخدا جانِ تبسم