تجلیات کا سہرا سجا کے آئے ہیں

تجلیات کا سہرا سجا کے آئے ہیں

لوائے حمد محمدﷺ اٹھا کے آئے ہیں


بدلنے والا ہے ماحول اب قیامت کا

کہ اب غلام حبیبِ خدا کے آئے ہیں


مسافتیں تو دیوانی ہیں میری سرعت کی

وہ لامکاں کو یہ باتیں بتا کے آئے ہیں


ہوا ہے ذکرِ مدینہ مرے قریب کہیں

کہ جھونکے مجھ کو بھی ٹھنڈی ہوا کے آئے ہیں


جِناں میں جانے سے کوئی نہ اب ہمیں روکے

کہ ہم حضورؐ کو نعتیں سنا کے آئے ہیں


فراقِ شہرِ مدینہ شدید ہے کتنا

یہ پوچھ ان سے جو طیبہ میں جا کے آئے ہیں


محبتوں کی ردائیں لپیٹ کر دیکھو

وہ اپنے نور سے دنیا سجا کے آئے ہیں


شکارِ پستئِ قلب و جگر تبسم کو

وہ اپنی نعت کے جملے بتا کے آئے ہیں

غم ہو گئے بے شمار آقا

مرحبا مرحبا آگئے مصطفےٰ

حسین اور کربلا

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

انوار دا مینہ وسدا پیا چار چوفیرے تے

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

کشتیاں اپنی کنارے پہ لگائے ہوئے ہیں

وہﷺ کہ ہیں خیرالا نام

واہ کیا جود و کرم ہے

کرم کے بادل برس رہے ہیں