غم ہو گئے بے شمار آقا

غم ہو گئے بے شمار آقا

بندہ تیرے نثار آقا


بگڑا جاتا ہے کھیل میرا

آقا آقا سنوار آقا


منجدھار پہ آ کے ناؤ ٹوٹی

دے ہاتھ کہ ہُوں میں پار آقا


ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری

لِلّٰہ یہ بوجھ اُتار آقا


ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہ

بھاری ہے تِرا وقار آقا


مجبور ہیں ہم تو فِکر کیا ہے

تم کو تو ہے اِختیار آقا


میں دُور ہوں تم تو ہو مِرے پاس

سُن لو میری پکار آقا


مجھ سا کوئی غمزدہ نہ ہوگا

تم سا نہیں غم گُسار آقا


گرداب میں پڑ گئی ہے کشتی

ڈُوبا ڈُوبا، اُتار آقا


تُم وہ کہ کرم کو ناز تم سے

میں وہ کہ بدی کو عار آقا


پھر منھ نہ پڑے کبھی خزاں کا

دے دے ایسی بہار آقا


جس کی مرضی خدا نہ ٹالے

میرا ہے وہ نامدار آقا


ہے ملکِ خدا پہ جس کا قبضہ

میرا ہے وہ کامگار آقا


سویا کیے نابکار بندے

رَویا کیے زار زار آقا


کیا بھول ہے ان کے ہوتے کہلائیں

دُنیا کے یہ تاجدار آقا


اُن کے ادنی گدا پہ مِٹ جائیں

ایسے ایسے ہزار آقا


بے ابرِ کرم کے میرے دھبّے

لَا تَغْسِلُھَ الْبِحَار آقا


اتنی رحمت رضاؔ پہ کر لو

لَا یَقْرُبُہُ الْبَوَار آقا

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا

شکر خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے

قافلے نے سُوئے طیبہ کمر آرائی کی

عرشِ حق ہے مسندِ رِفعت رسول اللہ کی

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

کیا مہکتے ہیں مہکنے والے

کِس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اُجالا کیا ہے

کعبہ کے بَدرالدُّجی تم پہ کروروں درود

گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر