میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

سرورِ کونین کا یہ اُمتی زندہ ہے


نعت گوئی کے لیے جو لفظ کرتا ہے عطا

میرے اندر کا وہ زندہ آدمی زندہ رہے


میری سوچوں میں بسے خوشبو نبیؐ کے نام کی

میری سوچوں میں یہی اِک روشنی زندہ رہے


آپؐ کی شانِ رسالت کے نہیں جو معترف

میری ایسے دشمنوں سے دشمنی زندہ رہے


رونقیں بڑھتی رہیں مکّے مدینے کی مُدام

دونوں شہروں کی ہمیشہ دلکشی زندہ رہے


میں تو اک معمولی شاعر ہوں مری اوقات کیا

آپؐ کے صدقے مگر یہ شاعری زندہ رہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

منگتے خالی ہاتھ نہ لَوٹے کِتنی ملی خیرات نہ پوچھو

جہاں ہے منور مدینے کے صدقے

قطرہ مانگے جو کوئی

الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

مرا عقیدہ ہے بعدِ محشر فلک پہ یہ اہتمام ہوگا

کہکشاں کہکشاں آپ کی رہگذر

میں لجپالاں دے لڑلگیاں مرے توں غم پرے رہندے

فلک خوبصورت سجایا نہ ہندا

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا