لے کے انگڑائی زمیں جاگ اٹھی ہو جیسے

لے کے انگڑائی زمیں جاگ اٹھی ہو جیسے

تیرے قدموں کی حسیں چاپ سُنی ہو جیسے


ایسا لگتا ہے شفاعت کی تمنا لے کر

ساری دنیا تیری چوکھٹ پہ کھڑی ہو جیسے


میں نے محسوس کیا ایسا لگا ہے مجھ کو

میری جنت تیرے قدموں میں پڑی ہو جیسے


جس کو دیکھوں میں وہی اڑتا چلا آتا ہے

میرے جیسوں کی وہاں بھیڑ لگی ہو جیسے


تُو نے چھوڑا تھا جہاں عرش پہ جانے والے !

بزمِ ہستی اُسی نقطے پہ رُکی ہو جیسے


تیری خوشبو کی طرح پھیلی چلی جاتی ہے

صبحِ صادق تیری خاطر ہی بنی ہو جیسے


لوگ رو پڑتے ہیں مسجد سے اذانیں سُن کر

تیری پُر نُور صدا گونج رہی ہو جیسے


تیری خوشبو سے مہک اُٹھتا ہے اُس کا دامن

میرا دل تیرے مدینے کی ، گلی ہو جیسے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

شہد نالوں مٹھے تیرے بول کملی والیا

مر کزِ عدل و محبّت آپ ہیں

مرے ویراں نگر میں بھی مرے آقاؐ بہار آئے

رشکِ قمر ہُوں رنگ رُخِ آفتاب ہُوں

میں فقیر کوئے رسول ہوں

زباں سے بیاں کچھ ثنا تو ہوئی ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے

شمائلِ نور بار میں جب لبِ محمد کا باب آیا

خوشا ان کی محبت ہے بسی

ہمرے حق میں تم دعا کرو ہم طیبہ نگر کو جاوت ہیں