کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے

دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے


تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں

جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے


وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب

ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے


کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا

جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے


نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی

جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے


کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے

جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے


سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا

جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

اٹھی جدھر نگاہ رسالت مآبؐ کی

توں ایں ساڈا چین تے قرار سوہنیا

ناؤ تھی منجدھار میں تھا پُر خطر دریا کا پاٹ

بلا لو پھر مجھے اے شاہِ بحرو بَر مدینے میں

در عطا کے کھلتے ہیں

بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر

آج کا دن شہِ دل گیر کا دن ہے لوگو

یاشَہَنشاہِ اُمَم! چشمِ کرم

تصّور میں مرے جب چہرۂ خیرالانام آیا

جی کردا مدینے دیا سائیاں