کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے

دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے


تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں

جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے


وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب

ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے


کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا

جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے


نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی

جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے


کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے

جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے


سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا

جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

دیگر کلام

جب مسافر کے قدم رک جائیں

رحمن ہے رحیم ہے سب سے عظیم ہے

دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے

اے خدائے کریم ! اے ستار!

دُور کر دے مرے اعمال کی کالک

یاالہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

گر وقت آ پڑا ھےمایوس کیوں کھڑا ھے

اللہ ہو اللہ ہو بندے ہر دم اللہ ہو

الہٰی حمد سے عاجز ہے یہ سارا جہاں تیرا

لائقِ حمد بھی، ثنا بھی تو