لائقِ حمد بھی، ثنا بھی تو

لائقِ حمد بھی، ثنا بھی تو

میرا معبود بھی، خدا بھی تو


تیرے اسرار کون جان سکے

سب میں موجود اور جدا بھی تو


بے نواؤں کی آخری امید

بے سہاروں کا آسرا بھی تو


التجا سب ترے حضور کریں

سب کی سنتا رہے دعا بھی تو


تو ہی سب سے بڑا مسیحا ہے

سب مریضوں کو دے شفا بھی تو


باعثِ ابتدا ہے ذات تری

واقفِ راز انتہا بھی تو


جو نہ کوئی بھی جانے، تو جانے

آرزو تو ہے اور رضا بھی تو


تیرے در کے سبھی سوالی ہیں

قلبِ کا عرضِ مدعا بھی تو


تجھ سے ظاہر ظہور ہے سب کا

اور ظہوریؔ کی ہے صدا بھی تو

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

یاالہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

گر وقت آ پڑا ھےمایوس کیوں کھڑا ھے

اللہ ہو اللہ ہو بندے ہر دم اللہ ہو

الہٰی حمد سے عاجز ہے یہ سارا جہاں تیرا

ہر اک شے دا والی توں ایں سب دنیا دا سائیاں

خالق تے مولا والی تے وارث جہان دا

سب کا پاسباں تُو ہے

اے خدا! سارے جہاں کو ہے بنایا تو نے

تُو خالق بھی مالک بھی ہے بحروبر کا