اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

رونق سی لگ گئی دلِ آشفتہ حال میں


حسنِ شہِ عرب کی ہیں تابانیاں جدا

خورشید تیرتا ہے رخِ پُر جمال میں


فیضان ہے یہ ناخنِ پائے حضور کا

یونہی کشش نہیں ہے وجودِ ہِلال میں


جب دیکھتے تھے شہرِ نبی اٹھتے بیٹھتے

دن کام کے وہی تھے مرے ماہ و سال میں


پھونکیں حسد کی جس کو نہ ہر گز بُجھا سکیں

محوِ سفر وہ نور ہے حضرت کی آل میں


کیسے بھلا سمجھ لوں تجھے خود سا اِک بشر

جب کہ کثافتیں ہیں مرے بال بال میں


کر دیجئے حضور تبسم کہ حشر میں

بدلے جلالِ ذاتِ الٰہی جمال میں

اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

جوارِ گُنبدِ اَخضر میں

بس رہی ہے فضاؤں میں خوشبو

وسے تیرا دربار پیا پا جھولی خیر فقیراں نوں

اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظمؒ

نُور لمحات میں اب عشق سویرا ہوگا

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

اپنے دامانِ شفاعت میں چھُپائے رکھنا