آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

خاکدانِ جہاں کی تھی حالت عجب


ہر طرف تھیں جہالت کی تاریکیاں

چار سُوتھی فلاکت کی منحوس شب


ڈوبی ڈوبی سی تھی نبضِ صدق و صفا

سہمی سہمی سی تھی روحِ علم و ادب


دَور دورہ زمیں پر تھا الحاد کا

آدمیّت کی ہر قدر تھی جاں بلب


تین سو ساٹھ بت خانہ حق میں تھے

بت پرستی میں اتنےبڑھے تھے عرب


عام تھا اُن میں آزارِ دختر کشی

ہر کوئی تھا پرستارِ بنتِ عنب


حد سے گزری جو انساں کی بے رہ روی

آگیا جو ش میں ناگہاں فضلِ رب

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے

بشر کی تاب کی ہے لکھ سکے

ولادتِ رسُولؐ

ہم جتنی بھی تعریف کریں تیری بجاہے

منگتے خالی ہاتھ نہ لَوٹے کِتنی ملی خیرات نہ پوچھو

شرحِ واللّیل ہیں گیسوئے معنبر راتیں،

چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے

حسنِ اسلام کا ہے علم جسے

رُوح کی تسکیں ہے ذِکر ِ احمدؐ ِ مختار میں

حالِ دل کس کو سنائیں