’’جوارِ گُنبدِ اَخضر میں رحمت کی چھما چھم ہے‘‘
درِ آقا پہ نُزہت ہے ، نظافت کی چھما چھم ہے
مؤاخاتِ مدینہ کا عجب پُر کیف ہے منظر
کہ انصار و مہاجر پر اخوّت کی چھما چھم ہے
جہاں سدرہ پہ رک جاتے ہیں جبریلِ امیں جیسے
وہاں پر بھی مرے آقا پہ رفعت کی چھما چھم ہے
وہ جس ماحول میں کِذب و خیانت راج کرتی تھی
وہاں سرکار پر صدق و دیانت کی چھما چھم ہے
اِدھر ہیں تین سو تیرہ ، اُدھر ہیں سہ گُنا بڑھ کر
مگر اللہ کی ان پر اعانت کی چھما چھم ہے
مخاطب جانی دشمن ہے ، ترا لہجہ ہے شہد ایسا
یہ لہجے میں ہمیشہ سے حلاوت کی چھما چھم ہے
کہ سایہ بھی نہیں پڑتا زمیں پر اُن کے پیکر کا
مرے آقا پہ اس درجہ لطافت کی چھما چھم ہے
جو نامُوسِ رسالت پر تصدق جان کرتے ہیں
اُنہی کے تو مقدر میں شہادت کی چھما چھم ہے
دلِ مٰضطر ہوا آزاد دنیا کے ہر اک غم سے
کہ ہر لمحہ ترے لطف و عنایت کی چھما چھم ہے
وہ ہر سائل کو دیتے ہیں طلب سے بھی کہیں بڑھ کر
درِ قاسم پہ ہر لمحہ سخاوت کی چھما چھم ہے
گنہ گاروں کو محشر میں ملی دوزخ سے آزادی
کہ اُن پر میرے آقا کی شفاعت کی چھما چھم ہے
کیا ہے وار دُشمن نے جو عثمانِ غنی تُجھ پر
لبوں پر اُس گھڑی تیرے تلاوت کی چھما چھم ہے
جلیلِ بے ہُنر کو بھی ملی توفیق مدحت کی
خوشا ! ایسے نکمّے پر سعادت کی چھما چھم ہے
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- مشکِ مدحت