نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

اسوہِ نور نے چمکایا ہے پیکر میرا


میں کہ رہتا ہوں تری یاد میں گم شاہِ عرب

پانی بھر جاتے ہیں دارا و سکندر میرا


اہلِ جنت کو سنانی ہے مجھے نعتِ نبی

ہو پرِ روحِ امیں کاش کہ منبر میرا


جس کو کہتے ہیں تخیّل، بہ طفیلِ مدحت

محوِ پرواز ہے آکاش سے اوپر میرا


مصطفٰی بولے سرِ خیبرِ ناقابلِ مات

تیرے نقصان کو کافی ہے یہ حیدر میرا


مانگنا اذن وہاں آنے کا اے بادِ صبا

حالِ دل جانِ دو عالم کو سنا کر میرا


فردِ عصیانِ تبسم پہ چلے بادِ کرم

مجھ کو لے جائے جو طیبہ میں مقدر میرا

سُنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رَسائی ہے

حالِ دل کس کو سنائیں

حاضر ہیں ترے دربار میں ہم

جہڑا رسولِ پاکؐ تو قربان ہوگیا

تو خُود پیام جلی تھا پیامبر تو نہ تھا

تیری ہر اک ادا علی اکبر

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

جل رہا ہے مُحمّد ؐ کی دہلیز پر

حاجیو! آؤ شہنشاہ کا رَوضہ دیکھو

مصطفیٰ ذاتِ یکتا آپ ہیں