کرتی ہے تسلسل سے اندھیروں کا سفر رات

کرتی ہے تسلسل سے اندھیروں کا سفر رات

تب جا کے کہیں تکتی ہے تنویرِ سحر رات


چھا جائے رخِ تازہ سحر پہ بھی اداسی

عشّاق کی آہوں کو چھپائے نہ اگر رات


یہ وقت ہے میلادِ شہِ کون و مکاں کا

چل کفر کے چوراہے سے پل بھر میں اتر رات !


کچھ ایسی محبت کی ضیاء دیجئے مجھ کو

کر پائے نہ تاریک مرے قلب و نظر رات


وہ چاہیں تو ہر دن ہو مرا عید کے جیسا

وہ چاہیں تو معراج کی شب ہو مری ہر رات


بے فیض کریں طولِ شبِ ہجر کا شکوہ

عشّاق تو اِک آہ میں کر جاتے ہیں سر رات


یہ چاند سناتا ہے ترے نعل کے قصّے

یوں کرتا ہے تاروں کی معیّت میں بسر رات


ہمرازِ فدایانِ رخِ ماہِ عرب ہے

رکھتی ہے حسِیں زلفِ معنبر کی خبر رات


دن شارحِ بیدارئِ حضرت ہے تبسم

اور عالمِ خوابیدہِ حضرت کا اثر رات

خاص رَونق ہے سرِ عرشِ علیٰ

بیمارِ محبت کے ہر درد کا چارا ہے

جب لیا نام نبی میں نے دعا سے پہلے

ماہ سیما ہے اَحْمدِ نوری

کشتیاں اپنی کنارے پہ لگائے ہوئے ہیں

مظہرِ شانِ حق ہے جمالِ نبیؐ

اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے

ہمیشہ قریۂ اُمّی لقب میں رہتے ہیں

ذوقِ دیدار اسے کیوں نہ ہمارا ڈھونڈے

کرم تیرے دا نہ کوئی ٹھکانہ یا رسول اللہؐ