جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے

جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے

وہ وصل کی لذت کا بھی حقدار نہیں ہے


سادات سے نفرت ہے ترے دل میں تو گویا

جنت سے تجھے کوئی سروکار نہیں ہے


اُس موسمِ گل کا بھی ارے ذوق ہے کیسا

جو خارِ مدینہ کا پرستار نہیں ہے


حتّٰی کہ تمہیں قربِ خدا کی بھی طلب ہو

اِس بارگہِ ناز سے انکار نہیں ہے


پھر بھی ہے تجھے گردشِ حالات کا رونا

کیا مولا ترا حیدرِ کرّار نہیں ہے ؟


جنت کو بھی کہتے ہیں اِسی واسطے جنت

کوئی وہاں سرکار کا غدّار نہیں ہے


گر جاتا ہے سجدے میں سرِ گنبدِ خضرٰی

دل سر کی طرح اتنا سمجھدار نہیں ہے


امید ہے کیا اس کو درِ مصطفوی سے

بوبکر و عمر کا جو وفادار نہیں ہے


اِس بات کا امکان سرے سے ہی نہیں ہے

سرکار کہیں منگتے کو ’’اس بار نہیں ہے‘‘


اشکوں کے سوا تیرے تبسم کی طلب ہے

کچھ اور مرے توشے میں سرکار نہیں ہے

دیگر کلام

جب سے وہ دلدار ہوئے ہیں

وہی راستہ رشکِ باغِ جِناں ہے

افتخارِ کائناتِ حسن ہے سویا ہوا

دامانِ طلب کیوں بھلا پھیلایا ہوا ہے

رشتہ نہیں ہے جس کا تِری بارگاہ سے

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

مشکل میں پڑی ہے بخدا جانِ تبسم

جو یادِ شہرِ نبی سے کشید ہوتے ہیں

ہر کوئی یہ کہتا ہے ترا ہونے سے پہلے

جیسے جیسے نور ظاہر آپ کا ہوتا رہا