جیسے جیسے نور ظاہر آپ کا ہوتا رہا
حسنِ کائنات سو جاں سے فدا ہوتا رہا
تاج و تخت و سلطنت سے ماوراء ہوتا رہا
آپ کے دربار کا جو جو گدا ہوتا رہا
شہرِ طیبہ سے قدم گھر کی طرف اٹھتے رہے
اور دل پہلو کے پنجرے سے رِہا ہوتا رہا
مل گیا مجھ کو مدینہ، اور واعظ شہر کا
رتجگوں پہ مان کر کے پارسا ہوتا رہا
میری جانب اٹھنے والا ہر قدم طوفان کا
زیرِ یادِ حیدرِ مشکل کشا ہوتا رہا
صرف اتنا یاد ہے کہ حاضری کا خط ملا
پھر نہیں معلوم دل میں کیا سے کیا ہوتا رہا
ہاں! طوافِ شہرِ محبوبِ خدا کرتے ہوئے
استلامِ روضہِ خیر الورٰی ہوتا رہا
اِک تبسم یار کے ہونٹوں پہ لانے کیلئے
سوئے حق سے وعدہِ تَرْضٰی وفا ہوتا رہا
شاعر کا نام :- حافظ محمد ابوبکر تبسمؔ
کتاب کا نام :- حسن الکلام فی مدح خیر الانامؐ