حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

رحمتِ سیدِ عالم کی ہوا جانتی ہے


کس کی زلفوں کی اسیری ہے ہماری منزل

رونقِ گلشنِ فردوس تُو کیا جانتی ہے


بس مرا کام یہی ہے کہ اَغِثْنِیْ کہہ دوں

آگے جانا ہے کہاں میری صدا جانتی ہے


موسمِ ابر نگاہوں میں بلا غرض نہیں

چشمِ تر ذکرِ مدینہ کو بڑا جانتی ہے


دیکھ کر اُس کو مرے دل کو سکوں ملتا ہے

مرض میرے کو بہت خاکِ شفا جانتی ہے


کون ہے دینِ محمدﷺ کا محافظ اب بھی

یا خدا جانے ہے یا کرب و بلا جانتی ہے


ہے روا اُس کیلئے اپنی کثافت کا گلہ

جسمِ اطہر کی لطافت کو ہوا جانتی ہے


اس سے بڑھ کر تو تبسم کا کوئی فخر نہیں

شاعرِ نعت ہوں اور اُن کی عطا جانتی ہے

ہر ویلے سوہنے دیاں گلاں ایخو کل کمائی

مرا کل بھی تیرے ہی نام تھا

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے

اے ربِّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت

بادشاہی ماہ سے ہے تا بہ ماہی آپؐ کی

مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مَرے دِل سے

نبیؐ کا نام بھی آرام جاں ہے

اِلٰہی دِکھادے جمالِ مدینہ

آغوشِ تصوّر میں مدینے کی زمیں ہے

اُن کے دربارِ اقدس میں جب بھی کوئی