جب سے وہ دلدار ہوئے ہیں

جب سے وہ دلدار ہوئے ہیں

اپنے بیڑے پار ہوئے ہیں


نعتِ نبی پڑھتے رہنے سے

لہجے خوشبودار ہوئے ہیں


باغِ عدن کی داد رسی کو

خَلق تِرے رخسار ہوئے ہیں


رب اُس اُس کا ہوتا گیا ہے

جس جس کے سرکار ہوئے ہیں


اُن کی گلیاں گھومنے والے

جنّت کے حقدار ہوئے ہیں


آپ کے ہوتے طوفانوں کے

سب حملے بیکار ہوئے ہیں


اُن آنکھوں کی پیاسی جنّت

جن کو تِرے دیدار ہوئے ہیں


شہرِ نبی کیا دیکھا، گویا

غفلت سے بیدار ہوئے ہیں


دیکھئیے اُن کا فیضِ تبسم

دشتِ دل گلزار ہوئے ہیں

دیگر کلام

نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

نہ جواہرات کی چاہ کر نہ گُہر کے ناز و نِعم اٹھا

اترے وہ اِس طرح مرے خواب و خیال میں

علاج تشنہ لبی کا کمال برسا ہے

قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

وہی راستہ رشکِ باغِ جِناں ہے

افتخارِ کائناتِ حسن ہے سویا ہوا

دامانِ طلب کیوں بھلا پھیلایا ہوا ہے

رشتہ نہیں ہے جس کا تِری بارگاہ سے

جو ہجرِ درِ شاہ کا بیمار نہیں ہے