وہی راستہ رشکِ باغِ جِناں ہے

وہی راستہ رشکِ باغِ جِناں ہے

وہی جس کی منزل ترا آستاں ہے


زمانے کا راندہ ہوا دل ہمارا

یہی پوچھتا ہے مدینہ کہاں ہے


اُنہیں اُن کی نعتیں سنانے کا جذبہ

لہو کی طرح میرے اندر رواں ہے


حضور آئیں، آ جائیں، اب آ بھی جائیں

مری دھڑکنیں بھی وظیفہ کناں ہیں


تمہی بے زبانوں کے مشکل کشا ہو

ترے ہجر کا درد بھی بے زباں ہے


ہے زر کی ہوس کیوں ترے مدحَ خواں کو

یہ جذبہ تو بالائے سود و زِیاں ہے


تمہارے تبسم کی جب سے ضیاء لی

گلستاں اُسی دن سے عنبر فشاں ہے

دیگر کلام

وقف جاناں ہے زندگی اپنی

حرصِ دنیا اے غلامِ سیّدِ ابرار چھوڑ

سر پہ عصیاں کا اُٹھائے بوجھ بھاری یانبیؐ

دیدِ شاہ کا مرہم گر بہم نہیں ہوگا

شب کی تنہائی میں دل کی بے قراری کو سلام

رحمت سراپا نورِ نبوت لیے ہوئے

میں تو کم تر ہوں مری بات ہے اعلیٰ افضل

درِ نبیﷺ پر پڑا رہوں گا

جب سامنے نظروں کے دربار نبیﷺ ہوگا

جب تک اُن کے عشق میں ڈوبا نہ تھا