نہ جواہرات کی چاہ کر نہ گُہر کے ناز و نِعم اٹھا

نہ جواہرات کی چاہ کر نہ گُہر کے ناز و نِعم اٹھا

مرے ساتھ چل دلِ غمزدہ! شہِ دیں کی خاکِ قدم اٹھا


میں مریضِ ہجرِ حبیب ہوں سو فلک کی وسعتِ بے بہا !

تجھے وسعتوں کا جو زعم ہے تو قدم بڑھا مرا غم اٹھا


وہ عطا کریں گے خیال بھی وہی دیں گے حُسنِ بیان بھی

اے مرے حضور کے مدحَ خواں تُو درود پڑھ کے قلم اٹھا


یہی میری منزلِ شوق ہے یہی بندگی کا عروج ہے

مجھے آستانہِ نور سے نہ اے پہریدارِ حرم اٹھا !


سرِ جنگِ خیبرِ سخت جاں ہوئے لب کشا مرے مصطفٰی

ترے نام کر دی گئی ظفر مرے مرتضٰی یہ علَم اٹھا


یہی آرزوئے حیات ہے کہ وہ مسکرا کے یہ حکم دیں

یہ اداسیوں کا جو بوجھ ہے دلِ ناتواں! ذرا کم اٹھا


اِدھر آ تبسمِ خستہ جاں تری مشکلات کو حل کریں

سرِ موجِ مشکلِ تُرش رُو تو بھی وردِ حیدریَم اٹھا

یا نبی دیکھا یہ رُتبہ آپ کی نعلین کا

آج ہیں ہر جگہ عاشِقانِ رسول

اے خدا مجھ کو مدینے کا گدا گر کردے

عشقِ نبی ﷺ جو دل میں بسایا نہ جائے گا

نبی کا اشارہ شجر کو رسائی

ساری عمر دی ایہو کمائی اے

اس کی طرف ہوا جو اشارہ علیؓ کا ہے

نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

نور کی شاخِ دلربا اصغر

اللہ اللہ یہ گناہگار پر شفقت تیری