نبی کا اشارہ شجر کو رسائی

نبی کا اشارہ شجر کو رسائی

ملی دوڑنے کے ہنر کی رسائی


ستاروں کی گردش عیاں سلسلہ ہے

نبی کی زیارت نہاں سلسلہ ہے


وہ شاہیں کا حملہ کبوتر وہاں سے

بچایا نبی نے معنبر زباں سے


ملا اونٹ روتا ہوا جب نبی سے

ستاتا ہے مالک کہا سب نبی سے


کریں میٹھا پانی ضرورت ہے ہم کو

لعابِ دہن سے کیا دور غم کو


کیا اپنی انگلی سے جو اک اشارہ

ہوا چاند ٹکڑے فلک پر ہمارا


نبی کو عدو آ گئے کھوجنے کو

سلیماں نے خندق کہا کھودنے کو


وہ قائم معزز ہے ناعت نبی کا

قدم چومتا ہے جو آلِ علی کا

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

درود چشم اور گوش پر کبھی صبا سے سن

کہیں پر عُود اور عنبر کہیں پر گُل بچھاتے ہیں

ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم

ہر اک ذرے میں احمد کا گزر ضو بار باقی ہے

آپ سے مل گیا ہے وقارِ جدا

زبان و دل سے مدحت کا جہاں بھر سے بیاں ارفع

جست میں عرش تک فاصلہ ہو گیا

مدینہ ہے ارم کا ایک ٹکڑا یا رسول اللہ

زمیں کی ظلمتوں کو نور سے اپنے مٹایا ہے

لفظ ہیں نعت کے پہچان میں آ جاتے ہیں