ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم

ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم

مصطفٰی کی دید کو ترسے ہیں ہم


موت کے آنے سے کب ڈرتے ہیں ہم

فرقتوں سے روز ہی مرتے ہیں ہم


کاش اب ان کی زیارت ہو ہمیں

دیدِ آقا کے لئے ترسے ہیں ہم


ہم بھی جاتے آپ کے طیبہ مگر

ہم تہی داماں تہی زر سے ہیں ہم


سبز گنبد کو بسا کر آنکھ میں

اک تصور سے وہاں بستے ہیں ہم


ہم بھی عاشق آپ کے ہیں یا نبی

دور رہ کر روز و شب تڑپے ہیں ہم


دل میں جَڑ کر شہرِ خوباں کے نگار

کب زیارت کے بنا رہتے ہیں ہم


جب بھی آفت گھیر لیتی ہے ہمیں

اپنے رب سے پھر بہت ڈرتے ہیں ہم


اک شفاعت کا ملا ہے آسرا

ورنہ قائم کیا سے کیا کرتے ہیں ہم

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

معطر معطر پسینہ ہے ان کا

کہا معراج پر آؤ شہِ ابرار بسم اللہ

’’حضور آپ کی سیرت کو جب امام کیا‘‘

درود چشم اور گوش پر کبھی صبا سے سن

کہیں پر عُود اور عنبر کہیں پر گُل بچھاتے ہیں

ہر اک ذرے میں احمد کا گزر ضو بار باقی ہے

آپ سے مل گیا ہے وقارِ جدا

نبی کا اشارہ شجر کو رسائی

زبان و دل سے مدحت کا جہاں بھر سے بیاں ارفع

جست میں عرش تک فاصلہ ہو گیا