اس کی طرف ہوا جو اشارہ علیؓ کا ہے

اس کی طرف ہوا جو اشارہ علیؓ کا ہے

خیبر لرز رہا ہے کہ نعرہ علیؓ کا ہے


ایمان کی نظر سے ہی آئے گا یہ نظر

منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے


جنّت کی آرزو ہے پھر آل نبیؐ سے بُغض

جنّت کا یہ نظام تو سارا علیؓ کا ہے


نوکِ سناں پہ چڑھ کے جو کرتا رہا کلام

زھراؓ کا لال راج دلارا علیؓ کا ہے


میرے وطن کے دشمنوں باور رہے تمہیں

پرچم پہ اس کے چاند ستارا علیؓ کا ہے


مشکل خدا گواہ ہے مشکل نہیں رہی

مشکل میں جب بھی نام پکارا علیؓ کا ہے


اصحاب کی توقیر کا جس کو رہا خیال

بس جان لو وہ شخص ہی پیارا علیؓ کا ہے


مرحب سے جا کے پوچھئے بتلائے گا تمہیں

رسوا ہے جگ میں آج بھی مارا علیؓ کا ہے


گرداب میں جلیل تُو ڈرتا ہے کس لیے

دریا ہے موجزن تو کنارہ علیؓ کا ہے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

ہم درد کے ماروں کا ہے کام صدا کرنا

طہٰ دی شان والیا عرشاں تے جان والیا

اے دوست چیرہ دستئ دورِ جہاں نہ پوچھ

مَیں نعرہ مستانہ، مَیں شوخئِ رِندانہ

اِلٰہی دِکھادے جمالِ مدینہ

تُو حبیبِ خدا خاتم الانبیاءؐ

پابند ہوں میں شافعِ محشر کی رضا کا

روک لیتی ہے آپ کی نسبت

دیکھتے کیا ہو اہل صفا

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے