دامانِ طلب کیوں بھلا پھیلایا ہوا ہے

دامانِ طلب کیوں بھلا پھیلایا ہوا ہے

سرکار کی رحمت پہ شباب آیا ہوا ہے


کیونکر نہ بڑھیں اہلِ خطا آپ کی جانب

جاؤک خداوند نے فرمایا ہوا ہے


روکے گا بھلا کون اسے باغِ عدن سے

طیبہ میں جسے آپ نے بلوایا ہوا ہے


سمجھائے کوئی آ کے مرے سوختہ دل کو

کیوں آپ کا ہو کر بھی یہ گھبرایا ہوا ہے


یہ راز کھلا آپ کی معراج سے آقا

اللّٰہ کا عرش آپ کا ہمسایہ ہوا ہے


جائے وہ مدینے میں شب و روز گزارے

جس کو غمِ حالات نے تڑپایا ہوا ہے


آ جائے گا طیبہ سے کسی روز بلاوا

دل کو اسی امید میں بہلایا ہوا ہے


اُس اشک پہ قربان ہو رعنائی دنیا

جو یادِ مدینہ کے سبب آیا ہوا ہے


کہہ دوں گا سرِحشر سنا کر تری نعتیں

بس عمرِ تبسم کا یہ سرمایہ ہوا ہے

ہے سکونِ قلب کا سامان نعتِ مصطفی

زلف دیکھی ہے کہ نظروں نے گھٹا دیکھی ہے

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

آیا ہے وفا کی خوشبو سےسینوں کو بسادینے والا

ہر جذبہ ایماں ہمہ تن جانِ مدینہ

اللہ نے پہنچایا سرکارؐ کے قدموں میں

اسے ڈھونڈتے آئیں گے خود کنارے

زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے

مٹتے ہیں دو عالم کے آزار مدینے میں

جہانِ انسانیّت میں توحید کا مقدس خیال زہراؑ