جہانِ انسانیّت میں توحید کا مقدس خیال زہراؑ
شرف میں وحدت ادا، اِمامت جبیں، نبّوت جمالِ زہراؑ
ہو جس پہ نازاں دلِ مصوّر، وہ نقشِ حُسنِ کمالِ زہراؑ
خدائے بے مثل کی خدائی میں تا اَبد بے مثال زہراؑ
یہ شمعِ عرفانِ ایزدی ہے، یہ مرکزِ آلِ مصطفےٰؐ ہے
حسن سے مہدیؑ تلک امامت کے سلسلے کی یہ ابتدا ہے
یہ ”ف“ سے فہمِ بشر کا حاصل ”الف“ سے اَلْحَمد کی کِرن ہے
یہ ”ط“ سے ”طٰہٰؐ “ کے گھر کی رونق یہ ”م“ سے منزلِ محن ہے
یہ ”ہ“ سے ہر دوسرا کے سلطاں کے دیں کی پُر نور انجمن ہے
یہ ”ز“ سے زینتِ زمیں کی ”ہ“ سے ہدایتوں کا ہرا چمن ہے
یہ ”ر “ سے رہبرِ رہِ وفا کی ” اَلف “ سے اوّل نسب ہے اس کا
اِسی لیے نام فاطمہ ہے جناب زہراؑ لقب ہے اس کا
یہ مُصحفِ آلِ مصطفےٰؐ میں مثال یٰسین محترم ہے
نہ پُوچھ اس کی بلندیوں کو آسماں بھی تہہِ قدم ہے
اِسی کی جلوؤں سے ہے یہ دنیا اِسی کی غیبت رُخِ عدم ہے
اِسی کی چوکھٹ پہ سجدہ کرنے سے آسماں کی کمر میں خم ہے
کیا ہے دونوں جہاں میں حق نے کچھ اس طرح انتخاب اس کا
کہ مرتضٰے کے سوا جہاں میں نہیں ہے کوئی جواب اس کا
اِسی کے نقشِ قدم کی برکت نے ماہ و انجم کو نور بخشا
اِسی کے دَر کے گداگروں نے ہی آدمی کو شعور بخشا
جو اس کا غم لے کے مر گیا ہے خدا نے اس کو ضرور بخشا
یہ روحِ عقل و شعور بھی ہے دلِ فروع و اُصول بھی ہے
زمیں پہ ہو تو علیؑ کی زوجہ، فلک پہ ہو تو بتول بھی ہے
عجیب منظر ہے صحنِ مسجد میں سب کو اُلجھن پڑی ہوئی ہے
یہ وہ گھڑی ہے کہ سانس حلقومِ زندگی میں اَڑی ہوئی ہے
تمام اصحاب دم بخود ہیں نظر زمیں میں گڑی ہُوئی ہے
ہُوئی ہیں مسند نشین زہرؑا مگر نبوّت کھڑی ہُوئی ہے
عمل سے ثابت کیا پیمبرؐ نے جو تھا پیغام کبریا کا
بشر تو کیا انبیاء پہ بھی احترام لازم ہے فاطمؑہْ کا
یہ وہ کلی ہے کہ جس کی خوشبو کو سجدہ کرتی ہیں خود بہاریں
یہ وہ ستارہ ہے جس سے روشن ہیں آسمانوں کی رہگزاریں
یہ وہ سحر ہے کہ جس کی کرنیں بھی ہیں امامت کی آبشاریں
یہ وہ گُہر ہے کہ جس کا صدقہ فلک سے آکر مَلک اُتاریں
یہ وہ ندی ہے جو آدمیّت کی مملکت میں رواں ہُوئی ہے
یہ وہ شجر ہے کہ جس کی چھاؤں میں خود شرافت جواں ہوئی ہے
حیا کی دیوی، وفا کی آیت، حجاب کی سلسبیل زہرؑا
کہیں ہے معصومیت کا ساحل، کہیں شرافت کی جھیل زہرؑا
جہانِ موجود میں بنی ہے وجودِ حق کی دلیل زہرؑا
زمانے بھر کی عدالتوں میں نِساء کی پہلی وکیل زہرؑا
حضورِ زہراؑ، بشر سے ہٹ کے پیمبروں کے سلام بھی ہیں
کہ اِس کے سائے میں پلنے والے حسین جیسے امام بھی ہیں
”کِساء“ میں آئی تو پنجتن کے شرف کی پہچان بن گئی ہے
”نِساء“ میں بیٹھی تو تربیت گاہِ دین و ایمان بن گئی ہے
سمٹ کے دیکھا تو ”ب“ کے نقطے کی زیر کی شان بن گئی ہے
بِکھر کے سوچا تو فاطمہؑ خود تمام قرآن بن گئی ہے
جہاں میں رمزِ شعورِ وحدت کی عارفہ ہے اَمیں ہے زہرؑا
”مباہلہ“ کی صفوں میں دیکھوں تو دیں کی فتحِ مبیں ہے زہرؑا
نبیؐ کے دیں تیری کشتِ ویراں پہ مثل ابرِ رواں ہے زہرؑا
مزاجِ آدم تری زمیں پر بصورتِ آسماں ہے زہرؑا
علیؑ کے گھر سے خدا کے گھر تک شعور کی کہکشاں ہے زہرؑا
بتولؑ و مریمؑ میں کیسی نسبت کہاں ہے مریم کہاں ہے زہرؑا
جناب مریم کہاں کہ زہرؑا تو انبیاء سے بھی بڑھ گئی ہے
کہ اُس کا بیٹا تو اس کے لختِ جگر کا بے لوث مقتدی ہے
اسی کے بچّے ہُنر سکھاتے ہیں دَہر کو کیمیا گری کا
اِسی نے اپنے گداگروں کو مزاج بخشا ہے افسری کا
اسی کا گھر مخزنِ ہدایت، یہی ہے محور پیمبری کا
اِسی کے نقشِ قدم کی مٹی سے راز ملتا ہے بُوذری کا
اِسی کی خوشبو کا نام جنّت ہے گنگناتی ہوا سے پوچھو
جنابِ زہرؑا کے مرتبے کو نصیریوں کے خدا سے پوچھو
یہ ایسی مشعل ہے جس کی کرنوں سے آگہی کے اصول چمکے
اِسی کے دم سے زمانے بھر کی جبیں پہ نامِ رسول چمکے
نجوم کرنوں کی بھیک مانگیں جو اس کے قدموں کی دھول چمکے
کہاں یہ ممکن ہے چاند، شب کو بغیرِ اذنِ بتولؐ چمکے
جو مجھ سے پوچھو تو عرض کردوں، قیاس آرائیاں غلط ہیں
یہ چاند میں داغ کب ہے لوگو، جنابِ زہراؑ کے دستخط ہیں
بہشت کیا ہے؟ تری مؤدّت کے بحرِ زرّیں کی بیکرانی
یہ عرش کیا ہے؟ زمیں پہ آنے سے پیشتر تری راجدھانی
شعور کیا ہے؟ ترا تعارف، یہ دین کیا ہے؟ تری کہانی
عذاب کیا ہے ؟ غضب ہے تیرا، ثواب کیا، تیری مہربانی
یہ کہکشاں رہگزر ہے تیری‘ یہ آسماں سائباں ہے تیرا
فلک پہ تاروں کی بھیڑ کیا ہے رواں دواں کارواں ہے تیرا
تُو ایسا نقطہ ہے جس کے دامن میں حق کی مرضی سمٹ رہی ہے
تری مشیت ہر ایک لحظہ نقابِ ہستی الٹ رہی ہے
ہے جس قیامت کا نام بخشش تری ردا سے لپٹ رہی ہے
یہ سانس لیتی ہے ساری دُنیا کہ تیری خیرات بٹ رہی ہے
تری عطا کے سبھی سلیقے مرے دلِ حشر خیز میں ہیں
سبھی ہواؤں پہ راج تیرا، سبھی سمندر جہیز میں ہیں
لکھا ہے میں نے جو یہ قصیدہ نہیں ہے کوئی کمال میرا
یہ سب کرم ہے تری نظر کا، قلم تھا ورنہ نڈھال میرا
درِ پیمبر پہ دے کے دستک، پلٹ پڑا پھر خیال میرا
زمانے بھر کے مؤرخوں سے ہے احتجاجاً سوال میرا
بتاؤ اُمّت کا ظلم اپنے نبیؐ کی بیٹی کے ساتھ کیوں ہے ؟
بتاؤ!! اب تک جنابِ زہرؑا کا ایک پہلو پہ ہاتھ کیوں ہے ؟
شاعر کا نام :- محسن نقوی
کتاب کا نام :- موجِ ادراک