موجِ ادراک

اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار

عاشور کا ڈھل جانا، صغراؑ کا وہ مرجانا

وہ حقیقی مردِ مومن، پیکرِ عزم و ثبات

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

ہیبتِ” نادِ علیؑ“ میں یہ قرینہ دیکھا

جل رہے ہیں بدن درد کی دھوپ میں

ہر سُو رواں ہَوائے خمارِ طرب ہے آج

علی، جمالِ دو عالم علی امامِ زمن

جہانِ انسانیّت میں توحید کا مقدس خیال زہراؑ

چمکتا ہے کہاں افلاک پر مہرِ مبیں ایسا

لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا نام

جہانِ عزمِ وفا کا پیکر

بِکھر رہے تھے یہ سَجدے، سنور گئے سجدے

شبّیر کَربلا کی حکومت کا تاجدار

اگر نہ صبرِ مسلسل کی انتہا کرتے

کربلا، اے سرخرو لوگوں کے سجدوں کی زمیں

زینبؑ، نبیؐ کا ناز، اِمامت کی آبرُو

قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علیؑ کی بیٹی

حسین چشمِ خزاں سے اوجھل بہار تیری یہ باغ تیرا

حُسین کی دکھ بھری کہانی تمام دنیا سُنا کرے گی

اِس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے ؟

دل جب سے ہے خاکِ رہ قنبر کے برابر

مظلومؑ کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے

تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند

خالِق نے کچھ اس طرح اُتارے ہیں محمّدؐ

اُس باغ پہ توحید کا پہرہ نہ ہو کیونکر؟

دل میں چاہت ہے پیمبرؐ کی تو دوزخ کیسی؟

محمّدؐ کی چاہت دماغوں کی شاہی

یہ بات مجھ پہ میرے عقیدے کا فیض ہے

فکرِ بشر خیالِ نبوت کی دُھول ہے