اِس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے ؟

اِس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے ؟

شبّیرؑ زمانے میں رسالت کی زباں ہے


یہ ابر کا ٹکڑا جو بِکھرتا ہے فَضا میں

سادات کے جلتے ہُوئے خیموں کا دُھواں ہے


بہنے لگا ہر ظلم مثالِ خس و خاشاک

زینبؑ، تری تقریر بھی اِک سیلِ رواں ہے


شبّیرؑ کی آواز جو گونجی سرِ مقتل

زینب یہی سمجھی، علی اکبرؑ کی اذاں ہے


کیوں برق سی گرتی ہے سرِ لشکرِ اعداء

اصغرؑ کے لبوں پر تو تبسّم کا نشاں ہے


بازار کے ہر موڑ پہ زینبؑ نے صدا دی

سجّاد سے پُوچھو، مرا عبّاسؑ کہاں ہے ؟


شبّیرؑ کا غم بھول کے دنیا کی خبر لے

محسؔن کو ابھی اتنی فراغت ہی کہاں ہے ؟

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- موجِ ادراک

دیگر کلام

علی، جمالِ دو عالم علی امامِ زمن

چنگیاں نے شاہاں کولوں میراں دیاں گولیاں

ہے دل میں مرے الفتِ محبُوبِ الٰہی

گھرانہ ہے یہ اُن کا ، یہ علی کے گھر کی چادر ہے

بزمِ محشر منعقد کر میرِ سامانِ جمال

عزم و استقلال کا پیکر حسین ابنِ علی

سر وہ ہے جو کٹے اسلام کی خدمت کے لیے

بہتری جس پہ کرے فخر وہ بہتر صدیق

سوئی تیری گود میں زہرا کی آل اے کربلا

آئے ہر سال محرّم ، مرے اشکوں