جس کو اپنا رخِ زیبا وہ دکھا دیتے ہیں

جس کو اپنا رخِ زیبا وہ دکھا دیتے ہیں

مسکرا کے وہ اندھیروں کو مٹا دیتے ہیں


ہم سے تیّاریِ محشر کا اگر پوچھے کوئی

ہم اسے آپ کی اِک نعت سنا دیتے ہیں


سرمہِ خاکِ درِ یار لگانے والے

آنکھ اٹھاتے ہیں تو محشر بھی اٹھا دیتے ہیں


ہادئ کون و مکاں ! آپ کے منظورِ نظر

شہرِ لاہور سے کعبہ بھی دکھا دیتے ہیں


اُس کی قربت کا تمنائی ہے سدرہ کا مکیں

اپنی قربت میں جسے آپ جگہ دیتے ہیں


سختئِ موت بھی اُن سب کو ڈرا سکتی نہیں

جو صدا آپ کو بر وقتِ قضا دیتے ہیں


رنگت و بوئے گلستان و وجودِ شبنم

مل کے سب تیرے تبسم کو دعا دیتے ہیں

سجنوں آیا اے ماہِ رمضان

باخبر سرِ حقیقت سے وہ مستانے ہیں

درد و آلام کے مارے ہوئے کیا دیتے ہیں

نگاہِ رحمت اٹھی ہوئی ہے

جہانِ انسانیّت میں توحید کا مقدس خیال زہراؑ

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

بطحا کو جانے والے

مٹتے ہیں دو عالم کے آزار مدینے میں

اِلٰہی دِکھادے جمالِ مدینہ

بازو در عرفاں کا ہے بازوئے محمدﷺ