میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

میں شہنشاہِ ؐ دو عالم کے پڑا ہوں

میں ذرّہ نا چیز ہوں یا بختِ رسا ہوں


اب کونسی نعمت کی طلب حق سے کروں میں

دہلیز پہ سلطانِؐ مدینہ کی کھڑا ہوں


اس پیکر نوریں کو تصّور میں بسا کر

میں روضہ اطہر کی طرف دیکھ رہا ہوں


دامن مرا دھلوایا گیا عرفہ میں پہلے

پھر درگہِ سرکارؐ میں بلوایا گیا ہوں


اے کاش درا دیر یہیں وقت ٹھہر جائے

میں پیشِ رسولِؐ عربی نعت سرا ہوں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

واہ کیا جود و کرم ہے

بخشی ہے خداوند نے قرآن کی دولت

ہم کو رحمٰن سے جو ملا، اس محمدؐ کی کیا بات ہے

حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

وقتی کہ شوم محوِ ثنائے شہِ لولاک

ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں

تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں

دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے

اِذنِ طیبہ عطا کیجئے