باخبر سرِ حقیقت سے وہ مستانے ہیں

باخبر سرِ حقیقت سے وہ مستانے ہیں

جن کی قسمت میں ترے عشق کے پیمانے ہیں


اب تو بے خواب نگاہوں کو دکھا دو جلوہ

کب سے محروم بہاروں سے یہ ویرانے ہیں


لاج رکھنا مرے سرکارؐ کریمی ہوگی ،

بس مرے پاس تو نعتوں کے یہ نذرانے ہیں


لوحِ محفوظ پہ رہتی ہیں نگاہیں انکی

میرے آقامرے مولا کے جو دیوانے ہیں


اپنی رحمت سے انہیں رنگ حقیقت دے دو

مری ہستی کے جو بکھرے ہوئے افسانے ہیں


عشقِ سرکارؐ مدینہ کی جو پیتے ہیں شراب

ان کی آنکھیں نہیں توحید کے میخانے ہیں


چشمِ عالم میں ضیا بن کے رہا کرتے ہیں

واقعی شمعِ رسالتؐ کے جو پروانے ہیں


اُن کو بس اُنکو سمجھتا ہوں میں اپنا خالدؔ

یادِ سرورؐ میں جو کونین سے بیگانے ہیں

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

ازل سے محوِ تماشائے یار ہم بھی ہیں

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

بُلاوا دوبارہ پھر اِک بار آئے

اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب

ہیں ہم چاک داماں خدائے محمدؐ

لو ختم ہوا طیبہ کا سفر

جانب منزل محبوب سفر میرا ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے

میرے اچھّے رسُول