ازل سے محوِ تماشائے یار ہم بھی ہیں

ازل سے محوِ تماشائے یار ہم بھی ہیں

جمالِ شاہِؐ اُمم پر نثار ہم بھی ہیں


ضیائے شاہِؐ عرب سے ہے اپنا دل روشن

چراغِ طُور کے آئینہ دار ہم بھی ہیں


زمانہ طالبِ خیراتِ لطف ہے اُن سے

پکار اے دلِ مضطر پکار! ہم بھی ہیں


بحق چادرِ زہراؓ اِدھر بھی ایک نظر

غبارِ راہ میں اے شہسوار! ہم بھی ہیں


ہمارا دھیان بھی طیبہ کے قافلے والو!

رواں دواں پسِ گرد و غبار ہم بھی ہیں


نظر جو اُن کی ہوئی ہم خزاں نصیبوں پر

تو پھر کہیں گے کہ رشکِ بہار ہم بھی ہیں


اِس ایک بات پہ ہے فخر ہم غریبوں کو

کہ اُن کے اُمتّیوں میں شمار ہم بھی ہیں


یہ اُس کریم کا دَر ہے کہ تاجدار، جہاں

پکارتے ہیں کہ اُمّیدوار ہم بھی ہیں


ہمیں بھی آپ سے اُمّید ہے شفاعت کی

اُٹھائے سر پہ گناہوں کا بار ہم بھی ہیں


صبا سے کہہ دو کہ جالی کو چومنے کے لیے

بس ایک تُو ہی نہیں بیقرار ، ہم بھی ہیں


جو پُل صراط پہ ہم پر بھی پڑ گئی وہ نظر

تو پھر نصیرؔ سمجھ لو کہ پار ہم بھی ہیں

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

خود ہی تمہید بنے عشق کے افسانے کی

حسبی ربی جل اللہ ما فی قلبی غیر اللہ

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپؐ آتے ہیں

راحت ِقلبِ غریباں

رحمن ہے رحیم ہے سب سے عظیم ہے

امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

ثنائےمحمد ﷺ جو کرتے رہیں گے

جب دور سے طیبہ کے آثار نظر آئے

وہ سُوئے لالہ زار پِھرتے ہیں