یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

رحمتِ دو جہاں اک تری ذات ہے اے حبیبِ خدا تیری کیا بات ہے


روحِ کون و مکاں پہ نکھار آگیا روحِ انسانیت کو قرار آگیا

مرحبا مرحبا ہر کسی نے کہا آمدِ مصطفیٰ تیری کیا بات ہے


حضرتِ آمنہؓ کے دلارے نبی، غمزدہ اُمتوں کے سہارے نبی

روزِ محشر کہے گی یہ خلقِ خدا سب کے مشکل کشا تیری کیا بات ہے


چار سو رحمتوں کی گھٹا چھا گئی، باغِ عالم میں فصلِ بہار آگئی

دل کا غنچہ کھلا، اسمِ اعظم ملا، ذکرِ صلِ علیٰ تیری کیا بات ہے


رحمتِ دو جہاں کا خزینہ ملے، جب گلے سے ہوائے مدینہ ملے

عرشیوں کی ندا، فرشیوں کی صدا، اے درِ مصطفیٰ تیری کیا بات ہے


آرزو تھی جو دل کی وہ پوری ہوئی، روضۂِ مصطفیٰ کی حضور ہوئی

ہر جگہ پر ظہوریؔ ظہوریؔ ہوئی، اے نبی کے گدا تیری کیا بات ہے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- صفتاں سوہنے دیاں

سَقَانِی الْحُبُّ کَاْسَاتِ الْوِصَالٖ

پھر مدینے کی فَضائیں پاگیا

حالِ دل کس کو سناؤں آپ کے ہوتے ہوئے

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

میرے حسین تجھے سلام

قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

ایک ذرّے کو بھی خورشید بناتے دیکھا

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

خلق دیتی ہے دہائی مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ