دونوں عالم میں ہے دن رات اُجالا تیرا

دونوں عالم میں ہے دن رات اُجالا تیرا

چھَب انوکھی ہے تری، حُسن نرالا تیرا


غنچہ و گُل میں ترے نقشِ کفِ پا کی جھلک

ہے بہارِ چمنستاں میں اُجالا تیرا


مظہرِ نورِ ازل، مصدرِ انوارِ ابد

از ازل تا بہ ابد نُور دو بالا تیرا


اے شہِ ؐ حُسن! دو عالم ترے قدموں پہ نثار

خود بھی شیدائی ، اللہ تعالیٰ تیرا


زینتِ بزمِ جہاں، صورتِ زیبا تیری

سروِ گُلزارِ حقیقت، قدِ بالا تیرا


جس جگہ تیری جھلک ہو، تری رعنائی ہو

جا ٹھہرتا ہے وہیں، دیکھنے والا تیرا


شبِ معراج ہے عنوان تری رفعت کا

ذات ارفع ہے تری ذکر ہے اعلیٰ تیرا


تُو ہے وہ شمعِ ضیا بار دو عالم کے لیے

ڈھونڈتے پھرتے ہیں کونین اُجالا تیرا


میری مرقد سے نکیرین پلٹ جائیں گے

اُن کو مِل جائے گا جس وقت حوالا تیرا


فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہ سے یہ بات کُھلی

تُو ہے اللہ کا، اللہ تعالیٰ تیرا


حشر میں ایک قیامت مِرے دل پر گزری

بن گئی بات، وسیلہ جو نکالا تیرا


صدقِ دل سے ہے نصیرؔ اہلِ طلب میں شامل

آسرا حشر میں ہے اے شہِؐ والا! تیرا

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

کوئی عالم نہ کوئی صاحبِ عرفاں نِکلا

مَیں کہاں، وہ سرزمینِ شاہِؐ بحرو بر کہاں

مدینہ مل گیا ورنہ سہارے ڈھونڈتا رہتا

میں ایک عاصی رحمت نگر حضورؐ کا ہوں

ہر دم یہی دُعا ہے میری ، مرے خُدا سے

شانِ حضور فکرِ بشر میں نہ آ سکے

درِ دل پر ہوئی دستک تو میں تیری طرف دوڑا

ہے آمدِ سعید شہِ کائنات کی

شبِ معراج ہے کیا کچھ لُٹایا جارہا ہے

نبي محترم صدیاں تمہارے نام سے روشن