میں ایک عاصی رحمت نگر حضورؐ کا ہوں

میں ایک عاصی رحمت نگر حضورؐ کا ہوں

زہے نصیب فقیرِ نظر حضورؐ کا ہوں


لگا سکے تو لگائے کوئی مری قیمت

گدا تو ہوں ‘ میں گدا بھی مگر حضورؐ کا ہوں


بھرم ہنوز سلامت ہے میری غیرت کا

خدا کا شکر کہ دریوزہ گر حضورؐ کا ہوں


ثنائے آقا سے نسبت ہے میرا عزّ و شرف

کہ ہوں تو میں بھی سخنور مگر حضورؐ کا ہوں


میں جیسا بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں انہی کا کرم

زفرق تابہ قدم سربسر حضورؐ کا ہوں


میں عام کرتا ہوں محفل میں اسوہء سرکارؐ

بہ فیض نعت میں پیغام بر حضورؐ کا ہوں


اب اس سے بڑھ کے مِرا اعتبار کیا ہوگا

گناہ گار بہت ہوں مگر حضورؐ کا ہوں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

ہو نگاہ کرم کملی والے تیرے بن کوئی میرا نہیں ہے

اُمیدیں لاکھ ٹو ٹیں تم کرم پر ہی نظر رکھنا

نہ فکر مند ہو دامن میں جس کے زر کوئی نئیں

آپ کے قدموں پہ سر رکھنا مری معراج ہے

جب حِرا کا پیامِ ہُدٰی نُور ہے

سنگ کی جب بارشیں شہ پہ کیں اغیار نے

ترےؐ دم سے کونین میں ہے اُجالا

گرچہ از روزِ ازل مشربِ رنداں دارم

بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں