پروفیسراقبال عظیم

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

نام بھی تیرا عقیدت سے لیے جاتا ہوں

صد شکر کہ یوں وردِ زباں حمدِ خدا ہے

حق صدا لاَ اِلہَ اِلّا ھُو

ناموں میں فقط نامِ خدا سب سے بڑا ہے

کونین کی ہر شے میں وہی جلوہ نما ہے

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں

اقباؔل حرزِ جاں ہے اب صرف یہ وظیفہ

بیان کیسے ہوں الفاظ میں صفات اُن کی

نہ مجھ کو خواہشِ جنت، نہ شوق حور و قصور

لوگ نازاں ہیں کہ و ہ حدِ یقیں تک پہنچے

دعا تو ہم بھی کرتے ہیں ، کرن پھوٹے ، سحر جاگے

تعلیمِ مصطفٰی ﷺ کا تقاضا ہے بندگی

اے ہادئ بر حق انہیں کچھ خوفِ خدا دے

ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں اور نظر بے نُور ہے

یہ پوچھنا ہے مجھے اپنی فرد عصیاں سے

میں کس سے جا کے پوچھوں منزل کدھر ہے میری

آنسو بصد خلوص بہانے کا وقت ہے

جراءت ِ مدح نبیﷺ کر تو رہا ہوں، لیکن

سفر مدینے کا کچھ ایسا مرحلہ تو نہیں

نعت میں کیسے کہوں ان کی رضا سے پہلے

کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ گرامی

میں اندھیرے میں ہوں ‘ تنویر کہاں سے لاؤں

ہے دونوں جلوہ گاہوں میں جلوہ حضور ﷺ کا

خدا کی حمد نعتِ مصطفیٰ ہے

سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں

بکھری پڑی ہے طیبہ میں خوشبو گلی گلی